پنجاب حکومت نے سال 2006 سے بسنت اور پتنگ بازی سے متعلق سرگرمیوں پر پابندی لگا رکھی ہے-پابندی کے اس دور میں پتنگ سازی اور اسکی تجارت سے, ضلع لاہور میں 150،000, گوجرانوالہ اور قصور اضلاع میں تقریبا 180،000 کارکن اس پیشے منسلک تھے.
گھریلو صنتعوں میں پتنگ سازی کو نمایاں مقام حاصل ھے-ایک محتاط اندازے کے مطابق ان صنتعوں میں کام کرنے والے زیادہ تر پتنگ ساز گھریلو ملازمین ھیں جن میں %90 گھریلو خواتین ھیں- پابندی نہ صرف ہزاروں خواتین کو بے روزگار کر گئی بلکہ اس نے دیگر شعبوں جیسے بانس، دھاگا، گلو، کاغذ کی صنعتوں کو بھی متاثر کیا. بد قسمتی سے غریب پتنگ ساز معاشرے کے سب سے مغلوب طبقہ ہیں جو اپنے بنیادی حقوق کے بارے میں نہیں جانتے, نہ ہںی اپنے ساتھ ہںونے والی اس زیادتی کے خلاف آواز بلند کرنے کی استطاعت رکھتےہیں.
پتنگ سازی کی صنعت اور اچانک پابندی کی وجہ سے، گھر کی چار دیواری میں بیٹھی یہ پتنگ ساز خواتین اپنی روزمرہ آمدن سے ہاتھ دھو بیٹھیں- حکومت وقت نےمشکل کی اس گھڑی میں پتنگ سازوں اور ان کے خاندانوں کو کوئی مدد فراہم نہیں کی جس کی وجہ سے انہیں روزگار کے دوسرے مواقع ڈھونڈنے کے لیے گھر نکلنا پڑا- ان لوگوں کے لیے کام کے مواقع روزانہ اجرت پہ مزدوری ، ٹھیلہ لگانا ، گھریلوملازمہ وغیرہ شامل تھے جسکی آمدن بہت کم تھی, پتنگ سازوں کےپاس پتنگ سازی کے سوا کوئی اور ہنر بھی نہیں تھا-
پتنگ سازوں کی تنگ دستی کا یہ عالم ھو گیا کہ انھوں نے اپنے بچوں کو اسکول جانے روک دیا کیونکہ اس آمدنی میں بمشکل گھر کا راشن پورا کر سکتے تھے,تعلیم کے اخراجات پورے کرنا انکے بس کی بات نہیں تھی- گھر سے باہر کام کے لیے کمسن بچوں کے لیے قابل اعتبار سرپرست کی فکر پتنگ ساز ماؤں کے لیے ایک بڑا مسلہ بنا- بہت سےلوگ، خاص طور پر خواتین، روزگار کی مستقل پریشانی کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار رہنے لگیں – روزگار چھن جانے سے کئی خاندان اپنے کمسن بچوں کو غیر محفوظ اور غیر صحت بخش مقامات پر جبرأ مزدوری کروانے پر مجبور ھوگئے-(پتنگ سازی پر پابندی سے پہلے یہی بچے گھر میں والدین کے زیر نگرانی پتنگ سازی میں انکا ہاتھ بٹاتے تھے) -گھر سے روزگار کی تلاش میں نکلنے والی پتنگ ساز خواتین کو ذرائع آمدورفت کے مسائل کا سامنا بھی تھا-
بد قسمتی یہ ہںے کہ 2010 تک اقترار کے ایوانوں سے لے کے ریاست کے مخیر حضرات تک, کسی نے نا ہںی معاشرے کے اس طبقے کی تکلیف کو محسوس کیا اور نہ ہںی کوئی ھمدردانہ رویہ دیکھنے میں آیا- 2010 میں یہ مسلہ پہلی بار “ہںوم نٹ پاکستان” کی طرف سے اٹھایا گیا, ہوم نٹ پاکستان غیر سرکاری ادارہ ھے اور عورتوں کی ترقی اور خودمختاری کے لیے کام کر رہںی ھے- یہ مسلہ اقتدار اعلی اور میڈیا کے سامنے بھی رکھا گیا تھا- ہںوم نٹ پاکستان نے 2013 میں پہلی مرتبہ حقیقی اعدادو شمار پہ مبنی ,تجزیاتی رپوٹ شائع کی, جو اس مسلہ پر پہلی دستاویزی تحقیق تھی- رپوٹ کے مطابق متاثرہ گھریلو پتنگ سازوں میں اکثریت “خواتین” تھیں-
پتنگ ازخود بنیادی طور آرٹ اور جیومیٹری کا ایک حسین امتزاج ھے اور یہ کسی شخص کی جان نہیں لے سکتی- ایک پتنگ کو آپ آرٹ کے بہترین نمونے کے طور پر لے سکتے ہیں, حقیقتأ ایک شاہںکار پتنگ, مصوری کے شاہپا رے سے کسی طور کم نہیں ہںے- اصل مسلے کی جڑ موٹادھاگااور قاتل ڈور ھے جسے پتنگ اڑانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا ھے-موٹی ڈور سازی کی صنعت پر مستقل پابندی کی بجاۓ, پتنگ بازی اور پتنگ سازی کے خلاف ناقص قانون کی تدوین کر دی گئی- حتی کہ اس ناقص قانون کا حقیقی اطلاق بھی نہ کیا جاسکا, جوکہ آئین کی شق 18 کی کھلی خلاف ورزی ھے اور غریب پتنگ ساز کو روزی روٹی سے محروم کر کے اسکا معاشی قتل کیا گیا-